Blog

ghar aur ghata new

”اماں اب چیزیں اٹھا لوں۔” سو نو نے اس کا کندھا ہلا کر کہا۔ شام کی اذانیں ہونے لگی تھیں۔ گلی میں بلب جل رہے تھے۔ سو نو گم صم بیٹھی اماں بختے کے پاس کھڑا ایک بار پھر اس کا کندھا ہلانے لگا۔ ”اب تو کوئی گاہک نہیں آئے گا اماں۔ ” اماں نے تھکے ہوئے لہجے میں سو نو کا چہرہ دیکھا۔ ”ہاں اب تو کوئی … کوئی نہیںآئے گا … اٹھا لے چیزیں سو نو۔ ”


٭

رضیہ نے پیسوں کا ڈبہ پوری قوت سے اماں کے سامنے صحن میں پھینکا تھا۔ کھنکھناتے سکے ڈبے سے نکل کر پورے صحن میں لڑھکیاں کھانے لگے تھے۔
”پھر گھاٹا … آج 30روپے کا گھاٹا اور بڑھیا کہتی ہے میں نے کچھ نہیں کھایا … کسی کو مفت چیز نہیں دی … کسی کو ادھار نہیں دیا … ہر ایک سے گن کے پیسے لیے ہیں … ارے تو پھر کیا بھوت آ کر کھا جاتے ہیں چیزیں۔ ” رضیہ گلا پھاڑ پھاڑ کر صحن کے وسط میں کھڑی چلا رہی تھی اس نے کچھ دیر پہلے ہی حساب کیا تھا …


”پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی اس بڑھیا سے اور اس گھاٹے سے … ” رضیہ بولتے ہوئے اندر چلی گئی۔ اماں بختے نے صحن میں بیٹھے بیٹھے گردن گھما کر برآمدے میں بیٹھے کھانا کھاتے ہوئے عبدل کو دیکھا جو سر جھکائے کھانے میں یوں محو تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
اماں بمشکل اپنی چارپائی سے کھڑی ہوئی پھر بڑی جدوجہد کے ساتھ صحن کے بیچ میں بیٹھ کر اس نے زمین پر پھیلے سکوں کو ٹٹول کر اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ وہ ساتھ بڑبڑا رہی تھی۔ ”گھاٹے کی سمجھ نہیں آئی … روز گھاٹا کیسے ہوجاتا ہے … روز تو نہیں ہونا چاہیے۔ آخر30 روپے کی چیزیں کون کھا گیا … ” وہ سکے اکٹھے کرتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔ تبھی سو نو اندر سے بھاگتا آیا۔ ”ٹھہر اماں میں جمع کرتا ہوں ”… اس نے بھاگ بھاگ کر صحن میں بکھرے وہ دس پندر ہ سکے دو منٹ میں جمع کر لیے تھے۔
اماں صحن کے وسط میں ڈبے کے پاس بیٹھی سو نو کو سکے جمع کرتی دیکھتی رہی۔ سو نو نے سکے جمع کرنے کے بعد انہیں لا کر اماں کے ڈبے میں ڈال دیا تھا۔ پھر اس نے بڑی معصومیت کے ساتھ اماں کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ”سارے پیسے اکٹھے کر کے ڈبے میں ڈال دیے ہیں گھاٹا تو نہیں ہوا نا … ؟ ” اس کے لہجے میں عجیب سی تشویش تھی۔
اماں کی آنکھوں میں نمی جھلملانے لگی۔ پھر سر نفی میں ہلاتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”نہیں گھاٹا نہیں ہوا … گھاٹا نہیں ہوا مجھے۔ ” سو نو کی آنکھوں میں بے حد فخریہ چمک نمودار ہوئی تھی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!