Blog

ghar aur ghata new

”بس ایک بار بچے بڑے ہو جائیں پھر سارے دلدر دور ہو جائیں گے ہمارے۔” شریف نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں رات کو صحن میں چارپائی پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ”پھر ہم بھی اپنے گھر کو پکا کریں گے۔ ” بختاور نے کہا۔ ”ہاں… نقشہ بنا کر دوبارہ گھر بنائیں گے۔ ” شریف کے پاس لمبی پلاننگ تھی۔ ”اوپر والی منزل بھی بنوائیں گے۔ ” بختاور نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھا۔ ”اور پورے گھر میں پتھر لگوائیں گے … یہ لش لش کرتا ہوا۔ ” بختاور کو میر صاحب کے گھر لگا پتھر یاد آیا۔ ”اور کمرہ ٹھنڈا کرنے والی مشین منگوائیں گے باہر سے … وہ جو حاجی صاحب کے گھر لگی ہے۔ ” شریف کو بھی ایک دوسرا محلے دار یاد آیا۔ ”اور وہ چیزیں ٹھنڈی کرنے والی مشین بھی لیں گے۔ ” ”اور TVبھی۔ ” دونوں کو ایک کے بعد ایک چیزیں یاد آ رہی تھیں۔”اور پھر ہم دونوں یہ بڈھابڈھی سارا دن اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلا کریں گے۔” شریف نے ہنس کر کہا۔ ”اور رات کو ہمارے بیٹے اور بہوئیں ہمارے پاس آ کر بیٹھیں گے۔” بختاور نے خوابوں کی چادر میں ایک اور گرہ لگائی۔ ”بیٹے تیرے پیر دبائیں گے۔”


”اور بہوئیں تیرے۔” شریف نے بے ساختہ کہا۔ ”ہماری خدمتیں کرتے پھریں گے … اباجی اور اماں جی کہہ کہہ کر … ” بختاور بھی ہنسی۔ ”میں تو پھر سارا دن آرام سے لمبی تان کر سویا کروں گا۔ ” شریف نے اپنے ارادے بتائے۔ ”نہ نہ ہم دونوں سیر کو نکلا کریں گے … سمندر کو جائیں گے جیسے گھر میں آنے سے پہلے جاتے تھے۔ ” بختار نے ایک عجیب سی حسرت کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا۔ شریف کی آنکھیں اب اندھیرے میں بھی جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!