Blog

ghar aur ghata new

”اماں ہاتھ تھک گئے میرے … اب بس کرو نا۔ ‘ ‘ سو نو نے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پراپنا وزن منتقل کرتے ہوئے شیشہ پکڑے پکڑے کچھ بیزاری سے کہا۔ ”ہاں ہاں … میں … میں بس کر رہی ہوں… ” اماں نے چونک کر اپنی چٹیا گوندھنا شروع کی … اس کے کپکپاتے ہاتھ چٹیا کو الٹے سیدھے بل دے رہے تھے … پر اس کا احساس تو خود اسے بھی نہیں تھا تو کسی دوسرے کو کیا ہوتا۔


”بس … ؟” آخری بل لگتے دیکھ کر سونو نے پوچھا۔”ہاں بس … ” اماں بختے نے تھکے ہوئے بازو کو ہلکا ہلکا دباتے ہوئے کہا۔ سو نو نے اس کی گود سے کنگھا اٹھا لیا۔ ”روٹی پک گئی کیا؟” اماں نے اس سے پوچھا۔ ”میں اماں سے پوچھ کے آتا ہوں۔” سو نو نے اسے اطلاع دی۔ ”نہیں اماں سے مت پوچھنا وہ ناراض ہو گی … تو خود باورچی خانے میں جا کے دیکھ کوئی روٹی بنا رہا ہے۔” اماں بختے نے اسے ٹوکا اور کہا۔ دوپہر کا کھانا سلائی سیکھنے والی لڑکیاں ہی باری باری پکایا کرتی تھیں۔
”اچھا میں دیکھ کے آ تا ہوں۔ ” سو نو غڑاپ سے ایک بار پھر گھر کے اندر غائب ہو گیا۔ اماں نے پیسوں کے ڈبے میں ایک بار پھر جھانک کر دیکھا۔ بھوک کے وقت پیسے گننا بڑا مشکل کام تھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!